یہ کیسی تیری پریت پیا


یہ کیسی تیری پریت پیا 
تو دھڑکن کا سنگیت پیا  

ترے رسم رواج عجیب بہت 
ہوا در در دیکھ نصیب بہت 
ترا ہجر جو مجھ میں آن بسا 
ترے ہو گئی یار! قریب بہت  

مجھے ایسے لگ گئے روگ بُرے 
میں جان گئی سب جوگ بُرے 
آ سانول نگری پار چلیں 
اس نگری کے سب لوگ بُرے  

تجھے دیکھ لیا جب خواب اندر 
میں آن پھنسی گرداب اندر 
بن پگلی، جھلَی، دیوانی 
تجھے ڈھونڈوں یار سراب اندر  

ترے جب سے ہو گئے نین جدا 
مرے دل سے ہو گیا چین جدا 
کیا ایک بدن میں دو روحیں 
ہم جسموں کے مابین جدا  

یہ ہے ازلوں سے رِیت پیا 
کب مل پائے من میت پیا 
اب لوٹ آؤ سُونے مَن میں 
کہیں وقت نہ جائے بیت پیا  

یہ کیسی تیری پریت پیا 
تو دھڑکن کا سنگیت پیا  

زین شکیل

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

qx

محبت ملی تو نیند بھی اپنی نہ رہی فراز

محبت ملی تو نیند بھی اپنی نہ رہی فراز  گمنام زندگی تھی تو کتنا سکون تھا