موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں
روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھئے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے؟
کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں
زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں
جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں
کب ضرورت ہو مری بچے کو، اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں
بھوک سے مجبور ہو کر مہماں کے سامنے
مانگتے ہیں بچے جب روٹی تو شرماتی ہے ماں
جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول
آنسوؤں کے ساز پر بچے کو بہلاتی ہے ماں
لوٹ کر واپس سفر سے جب بھی گھر آتے ہیں ہم
ڈال کر بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں
ایسا لگتا ہے جیسے آگئے فردوس میں
کھینچ کر بانہوں میں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں
دیر ہو جاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب کبھی
ریت پر مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں
شکر ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دئے جاتی ہے ماں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں