بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں
تتلی کے پر نوچ کے اچھلا کرتے تھے
چھوٹے تھے تو مکروفریب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑیوں کو پکڑا کرتے تھے
پاوں مار کے بارش کے پانی میں
اپنا پاوں آپ بھگویا کرتے تھے
اپنے جل جانے کا بھی احساس نہ تھا
جلتے ہوۓ شعلوں کو چھیڑا کرتے تھے
اب تو ایک آنسو بھی رسوا کر دیتا ہے
بچپن میں تو جی بھر کے رویا کرتے تھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں