اس طرح تو یہ ٹوٹ جائے گا
دل
پرکھنے کی چیز تھوڑی ہے
دل کو چھو لینے والی شاعری امید ہے أپ کو میری کولیکشن ضرور پسند آۓ گی فرینڈز اگر پسند أۓ تو اپنی قیمتی أراء سے ضرور أگاہ کیجیے گا شکریہ
پدلا وفا کا دیں گے بڑی سادگی سے ہم
تم ہم سے روٹھ جاؤ گے اور زندگی سے ہم
نفی تم ہو نہیں سکتے ، جمع سے تم کو نفرت ہے
محسن میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان
وہ شخص آج مجھ کو بے جان کر گیا
تجھ سے عشق کر لیا اب خسارہ کیسا
دریائے محبت میں جو اتر گئے اب کنارہ کیسا
اک بار تیرے ہو گئے،بس ہو گئے
روز روز کرنا نیااستخارہ کیسا
جانے کس راہ سے آ جائے وہ آنے والا
اب تک دلِ خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
وابستہ ہو گئیں تھی کچھ امیدیں آپ سے
غم ہی غم ہیں تری امید میں کیا رکھا ہے
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
وہ خط جو تم نے کبھی لکھا ہی نہیں
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
وہ آٸینے کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے
خدا کسی کسی کو یہ کمال دیتا ہے
نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں
قاصد سن , چھوڑ گلے شکوے یہ بتا
اس نے پہلےکیا کہا پھر کیا کہا ,پھر کیا کہا
قاصد پیام شوق کو دینا نہ اتنا طول
کہنا فقط یہ ان سے آنکھیں ترس گئیں
اسے پانا اسے کھونا اُسی کے ہجر میں رونا
بات چھوٹی سی بھی افسانہ بنا دیتی ہے
اُس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی
وہ کہہ کے چلے اتنی ملاقات بہت ہے
میں نے کہا رک جاؤ ابھی رات بہت ہے
آنسوں میرے تھم جائیں تو پھر شوق سے جانا
ایسے میں کہاں جاؤ گی برسات بہت ہے
غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا کریں مجھے
ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے
شدید اتنا رہا تیرا انتظار مجھے
کہ وقت مِنّتیں کرتا رہا؛ "گزار مجھے"
اب اپنا اپنا مقدّر شکایتیں کیسی
تجھے بہار نے گُل دے دیے تو خار مجھے
میں تیرا میرا تعلّق بچاتے جاں سے گیا
تُو پھر بھی اپنوں میں کرتا نہیں شمار مجھے
چلا میں روٹھ کر آواز تک نہ دی اس نے
میں دل میں چیخ کے کہتا رہا، "پکار مجھے"
بچھڑ کے تجھ سے میں اک سانس تک نہیں لوں گا
خدا نے گر دیا دھڑکن پہ اختیار مجھے
وفا کے نام پہ جو قتلِ اعتبار کریں
خدایا ایسوں کی بستی میں مت اتار مجھے
نصیب ہوتی نہیں منزلیں یہاں پہ اسیر
رہِ وفا کا یہ کہتا رہا غبار مجھے
محبت کے لیے کچھ دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پہ گایا نہیں جاتا
پھر یوں ہوا کہ راستے یکجا نہیں رہے
میں بھی انا پرست تھا وہ بھی انا پرست
شام سورج کو ڈھلنا سکھا دیتی ہے
شمع پروانے کو جلنا سکھا دیتی ہے
گرنے والے کو تکلیف تو ہوتی ہےمگر
ٹھوکر انسان کو چلنا سکھا دیتی ہے
ہم نے اس کو اتنا دیکھا جتنا دیکھا جا سکتا تھا
لیکن پھر بھی دو آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا تھا
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
تاثیر ہی الٹی ہے اخلاص کے امرت کی
ہم جس کو پلاتے ہیں وہی زہر اگلتا ہے
چراؤ نظریں،چھڑاؤ دامن ، بدل کے رستہ، بڑھاؤ الجھن
تمہیں دعاؤں سے پھر بھی میں نے،جو پالیا تو کیا کروگے؟
لازم نہیں کہ اس کو بھی میرا خیال ہو
جو میرا حال ہے وہی اس کا بھی حال ہو۔
ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اُتَر جائے گا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب كے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
اپنا سمجھ کے جس کے لیے ہم اجڑ گئے
کل شام جا رہا تھا کسی اجنبی کے ساتھ
اک شخص کو کھو دینے کا ڈر کیوں نہیں جاتا
یہ بوجھ میرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
منزل پر پہنچ کر بھی اسے کھونا ہی پڑے گا
جب یہ تہہ ہے تو پھر شوق سفر کیوں نہیں جاتا
جب ملو کسی سے تو ذرا دور کی یاری رکھنا
تم ان کو اپنی تمناؤں کا مرکز نہ بنانا
چاند تو ہرجائی ہے ہر گھر میں اتر جاتا ہے
خیریت نہیں پوچھتا مگر خبر رکھتا ہے
میں نے سنا ہے وہ مجھ پر نظر رکھتا ہے
بچھڑا ہے جو اک بار تو ملتے نہیں دیکھا
اس زخم کو ہم نے کبھی سلتے نہیں دیکھا
اک بار جسے چاٹ گئی دھوپ کی خواہش
پھر شاخ پہ اس پھول کو کھلتے نہیں دیکھا
یک لخت گرا ہے تو جڑیں تک نکل آئیں
جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا
کانٹوں میں گھرے پھول کو چوم آئے گی لیکن
تتلی کے پروں کو کبھی چھلتے نہیں دیکھا
کس طرح مری روح ہری کر گیا آخر
وہ زہر جسے جسم میں کھلتے نہیں دیکھا
محبت ملی تو نیند بھی اپنی نہ رہی فراز
گمنام زندگی تھی تو کتنا سکون تھا
جو دو اجازت تو تم سے اک بات پوچھیں
جو سیکھا تھا ہم سے، وہ عشق اب کس سے کرتے ہو
محبت مل نہیں سکتی، مجھے معلوم ہے صاحب
مگر خاموش بیٹھا ہوں، محبت کرجو بیٹھا ہوں
کب دعاؤں کا محتاج ہوتا ہے
عشق تو لا علاج ہوتا ہے
عشق کے اپنے اصول ہوتے ہیں
عشق کا اپنا روج ہوتا ہے
عشق کے عین سے عبادت ہے
عشق روح کا اناج ہوتا ہے
عشق جسموں کو سر نہیں کرتا
عشق کا ذہنوں پر راج ہوتا ہے
عشق میں شاہ فقیر ہوتے ہیں
عشق کانٹوں کا تاج ہوتا ہے
عشق میں کوئی حد نہیں ہوتی
عشق میں نہ کل نہ آج ہوتا ہے
عشق خود ہی ظلم کرتا ہے
عشق خود ہی احتجاج ہوتا ہے
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر بات پہ رونا آیا
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول چکے ہیں ان کو
نجانے آج پھر کس بات پر رونا آیا
جنہوں کا عشق صادق ہو وہ کب فریاد کرتے ہیں
لبوں پہ مہر خاموشی دلوں میں یاد کرتے ہیں
لکھنا تو تھا کہ خوش ہوں تیرے بغیر بھی
آنسو مگر قلم سے پہلے ہی گر گئے
پہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فراز
دل خود یہ چاہتا تھا رسوائیاں بھی ہوں
تو نے ہی تو کہا تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو نہ اب ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ
رسم دنیا ہے کہ ملتے ہیں بچھڑنے کے لیے
ایسیے نا چاہو کہ جدائی کی رسم نہ رہے
آنکھوں کو انتظار کے لمحات سونپ کر
نیندیں بھی کوئی لے گیا اپنے سفر کے ساتھ
جنازہ روک کر میرا وہ اس انداز سے بولے
گلی کہی تھی ہم نے تم تو دنیا ہی چھوڑ چلے
اس کا ملنا ہی مقدر میں نہی تھا ورنہ
ہم نے کیا کچھ نہی کھویا اسے پانے کیلۓ
آیا ہی تھا خیال کہ آنکھیں چھلک پڑی
آنسو کسی کی یاد میں کتنے قریب تھے
سانسوں کے سلسلے کو نہ دوزندگی کا نام
جینے کے باوجود بھی کچھ لوگ مر گۓ
تم نے دیکھی ہیں وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
معمول بن گیا ہے میرا راتوں کو جاگنا
نیند میرے وجود کی اک شخص لے گیا
آج کی رات بھی ممکن ہے نا سو سکوں
یاد پھر آۓ ہے نیندوں کو اڑانے والے
محبت ہو بھی جائے تو کبھی اظہار مت کرنا
یہ دنیا سچے جذبوں کی بڑی توہین کرتی ہے
کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک
جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ
ہم باوفا تھے اس لیے نظروں سے گر گئے
شاید اسے تلاش کسی بے وفا کی تھی
شک تو تھا ہم کو، محبت میں خسارے ہوں گے
لیکن اندازہ نہ تھا، سب ہی ہمارے ہوں گے
اور کیا روشنی ہو گی شبِ ہجراں میں بھلا
جل اٹھیں گے سرِ مژگاں جو ستارے ہوں گے
صبح دم جو نئے منظر نظر آتے ہیں ہمیں
خونِ دل دے کے کسی نے یہ نکھارے ہوں گے
عشق گردی کو ہم اس شوق میں تنہا نکلے
رہ میں شاید ہمیں کچھ غیبی اشارے ہوں گے
کیا غرض ظلمتِ پیہم کو، اندھیرے اتنے
شب گزیدوں نے بھلا کیسے گزارے ہوں گے
ہم سمجھتے تھے کہ ٹھہرائیں گے کشتی کو جہاں
منتظر بس وہیں دریا کے کنارے ہوں گے
خاک کے پتلے میں رعنائی کہاں سے آتی
خال و خد ہاتھ سے خالق نے سنوارے ہوں گے
جل کے دل خاک یا کندن ہوا ہو گا پہلے
لفظ تو بعد میں کاغذ پہ اتارے ہوں گے
اس غلط فہمی میں مارے گئے دشمن اپنے
برف کی تہہ میں کہاں کوئی شرارے ہوں گے
چوم لیتی ہیں کبھی لب تو کبھی رخسارکو
تم نے زلفوں کو بڑا سر پہ چڑھا رکھا ہے
اس آخری نظر میں عجب درد تھا منیر
جانے کا اس کے رنج مجھے عمر بھر رہا
تنہا کوئی ملے تو کریں دل کی بات بھی
ہر آدمی کے ساتھ ہے سایہ لگا ہوا
تیری نظروں کو فرصت نہ ملی
ورنہ مرض اتنا لاعلاج نہ تھا
ہم نے وہاں بھی محبت بانٹ دی
جہاں محبتوں کا رواج نہ تھا
بدلہ وفا کا دینگے بڑی سادگی سے ہم
تم ہم سے روٹھ جاو گے اور زندگی سے ہم
بات لطیفوں سے وظیفوں تک آ پہنچی ہے
زندگی ہمیں کہاں سے کہاں لے آئی ہے
کتنا آساں تھا تیرے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
ایک شخص اس طرح میرے دل میں اتر گیا
جیسے جانتا تھا وہ میرے دل کے راستے
کیوں چپکے سے اتر جاتے ہیں وہ لوگ دل میں یا رب
جن سے قسمت کے ستارے نہیں ملتے
سنو ہم بیٹھ کر تنہا کسی ویران گوشے میں
ہوا کو دکھ سنائیں گے تجھے ہم بھول جائیں گے
ہاتھ دیا اس نے جو میرے ہاتھ میں
میں تو ولی ہی بن گیا اک رات میں؛
عشق کرو گے تو کماؤ گے نام
یہ تہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں؛
شام کی گلرنگ ہوا کیا چلی
درد مہکنے لگا جذبات میں؛
ہاتھ میں کاغذ کی لیے چھتریاں
گھر سے نہ نکلا کرو برسات میں؛
ربط بڑھایا نہ قتیلؔ اس لیے
فرق تھا دونوں کے خیالات میں
وہ دل ہی کیا جو ترے ملنے کی دعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے
رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر
یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے
یہ ٹھیک ہے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی سے کسی کو مگر جدا نہ کرے
سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے
جو دل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے
زمانہ دیکھ چکا ہے پرکھ چکا ہے اسے
قتیلؔ جان سے جائے پر التجا نہ کرے
شاعر قتیل شفائی
بچپن کے دکھ کتنے اچھے ہوتے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
تتلی کے پر نوچ کے اچھلا کرتے تھے
چھوٹے تھے تو مکروفریب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑیوں کو پکڑا کرتے تھے
پاوں مار کے بارش کے پانی میں
اپنا پاوں آپ بھگویا کرتے تھے
اپنے جل جانے کا بھی احساس نہ تھا
جلتے ہوۓ شعلوں کو چھیڑا کرتے تھے
اب تو ایک آنسو بھی رسوا کر دیتا ہے
بچپن میں تو جی بھر کے رویا کرتے تھے
محبت ملی تو نیند بھی اپنی نہ رہی فراز گمنام زندگی تھی تو کتنا سکون تھا